EN हिंदी
ساری رات کہانی سن کے ہم تو لب نہ کھولیں گے | شیح شیری
sari raat kahani sun ke hum to lab na kholenge

غزل

ساری رات کہانی سن کے ہم تو لب نہ کھولیں گے

مشتاق سنگھ

;

ساری رات کہانی سن کے ہم تو لب نہ کھولیں گے
ویسے چھپ کے ہنس بھی لیں گے ویسے تنہا رو لیں گے

اجڑے دل کی بستی والے اتنے غافل ہوتے ہیں
کھو بھی گئے تو اس میلے میں کسی کے سنگ بھی ہو لیں گے

بادل گرجے بجلی کڑکے یا ساون بھادوں برسیں
ہم سڑکوں پہ رہنے والے چپی سادھ کے سو لیں گے

یارو تم یہ فکر نہ کرنا کس کے سر الزام لگے
ہم تو اپنے خون سے اپنے دونوں ہاتھ بھگو لیں گے

جب بھی درد سے دل تڑپے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوگی روح
کسی اندھیرے کمرے میں ہم دل میں درد سمو لیں گے

ہم نے ساری عمر اکیلے موت کا رستہ دیکھا ہے
جب بھی آئی کسی بھی چوکھٹ پر سر رکھ کے سو لیں گے

چپکے چپکے کفن لپیٹے نکلیں گے جب ہم گھر سے
لاکھ بلاؤ گے رو رو کر ہرگز آنکھ نہ کھولیں گے