ساری دنیا میں دانہ ہے اپنے گھر میں کچھ بھی نہیں
ایسا لگتا ہے اب اس کے کیسۂ زر میں کچھ بھی نہیں
ذوق نظر پھر آمادہ ہے جلووں کی پیمائش پر
خالی آنکھیں یہ کہتی ہیں چاند نگر میں کچھ بھی نہیں
خود داری بھی کچا شیشہ فن کاری بھی کچی نیند
سب کچھ کھو کر یہ پایا ہے شہر ہنر میں کچھ بھی نہیں
چاروں کھونٹ پھرا ہوں لیکن اپنے آپ کو پا نہ سکا
گھر آ کر یہ راز کھلا ہے سمت و سفر میں کچھ بھی نہیں
پرکھوں سے عنوان سنا ہے بھوک اور نیند میں رشتہ ہے
آج کی رات کٹھن گزرے گی آج تو گھر میں کچھ بھی نہیں
غزل
ساری دنیا میں دانہ ہے اپنے گھر میں کچھ بھی نہیں
عنوان چشتی