EN हिंदी
ساری دنیا کے ستم اور مرا دل تنہا | شیح شیری
sari duniya ke sitam aur mera dil tanha

غزل

ساری دنیا کے ستم اور مرا دل تنہا

تمنا جمالی

;

ساری دنیا کے ستم اور مرا دل تنہا
میں نے جھیلی ہے زمانے میں یہ مشکل تنہا

سب نے ہنگامۂ محفل کے مزے لوٹے ہیں
رہ گئی شمع بے چاری سر محفل تنہا

کب تلک ٹھیک نہ ہوگا غم دوراں کا مزاج
ہم بھی بیٹھے ہیں زمانے کے مقابل تنہا

اب کسی رہبر منزل کی تمنا بھی نہیں
میں اکیلا ہوں مسافر مری منزل تنہا