ساری باتیں خواب کی تعبیر سے ملتی تو ہیں
میری تحریریں تری تصویر سے ملتی تو ہیں
وہ سحر کی دل کشی ہو یا شفق کی سرخیاں
کچھ نہ کچھ یہ آپ کی تصویر سے ملتی تو ہیں
اہل ثروت آج بھی لرزاں ہیں جن کے نام سے
مشکلیں وہ سب ہمیں تقدیر سے ملتی تو ہیں
یہ حقیقت ہے عیاں تاریخ کے اوراق سے
زندگی کی رفعتیں زنجیر سے ملتی تو ہیں
سر بلندی کامیابی راحتیں آزادیاں
آج بھی یہ جوہر شمشیر سے ملتی تو ہیں
تشنہ لب رکھا تھا جس نے اصغر معصوم کو
خون کی بوندیں ہمیں اس تیر سے ملتی تو ہیں
جن میں نصرتؔ ایک مدت ہم بھٹکتے ہی رہے
ظلمتیں وہ آج کی تنویر سے ملتی تو ہیں

غزل
ساری باتیں خواب کی تعبیر سے ملتی تو ہیں
نصرت صدیقی