سارے تو نہیں جان بچانے میں لگے ہیں
کچھ گھاؤ ہمیں زخم لگانے میں لگے ہیں
ہے سب کو خبر شاہ کے چہرے پہ ہے کالک
آئینے مگر سارے چھپانے میں لگے ہیں
بیچ آئے اسے اس کے نگہبان کبھی کا
ہم لوگ مگر گھر کو سجانے میں لگے ہیں
بیٹھا ہی نہیں جاتا پرندوں میں بھی اب تو
بے پر کی یہاں یہ بھی اڑانے میں لگے ہیں
مرنے پہ کھلی ہے ترے درویش کی قیمت
پتھر بھی سرہانے کے خزانے میں لگے ہیں
صحرا میں چلا آیا ہوں کچھ پیاس بجھا لوں
دریاؤں پہ سب پینے پلانے میں لگے ہیں
آ جائے گی چکر میں ہمارے وہ کسی دن
ہم گردش دوراں کو گھمانے میں لگے ہیں
لگتا ہی نہیں دور محبت بھی کبھی تھا
اب لوگ یہاں صرف کمانے میں لگے ہیں
اس نے بھی تو ہے وقت کی گردش کو سنوارا
اخترؔ سے کئی چاند زمانے میں لگے ہیں
غزل
سارے تو نہیں جان بچانے میں لگے ہیں
جنید اختر