سارے منظر خاک ہوتے جا رہے ہیں دوستو
ہم نے جو پایا ہے کھوتے جا رہے ہیں دوستو
آؤ پیدل ہی سفر کے سلسلوں کو روند دیں
بیٹھے بیٹھے بانجھ ہوتے جا رہے ہیں دوستو
سانس کی ڈوری میں اجڑے موسموں کی سیپیاں
اک تسلسل سے پروتے جا رہے ہیں دوستو
تیرتی مڑ مڑ کے تکتی کشتیوں کے بادباں
رفتہ رفتہ دور ہوتے جا رہے ہیں دوستو
نا سمجھ اس سر زمین پر آنے والوں کے لیے
نت نئے بحران بوتے جا رہے ہیں دوستو
یہ گھنی چھاؤں پڑاؤ تھی نئے آغاز کا
اس گھنی چھاؤں میں سوتے جا رہے ہیں دوستو

غزل
سارے منظر خاک ہوتے جا رہے ہیں دوستو
مراتب اختر