سارے جگ سے روٹھ جانا چاہتی ہوں
ہاں مگر تم کو منانا چاہتی ہوں
اک خوشی گر تو جو مجھ کو دے سکے تو
سارے غم کو بھول جانا چاہتی ہوں
ہاں وطن کو چھوڑا برسو ہو چکے ہیں
اب میں لیکن لوٹ آنا چاہتی ہوں
ابتدا تو ہی ہے میری انتہا بھی
میں فقط اتنا بتانا چاہتی ہوں
اینٹ پتھر سے مکاں بنتے ہے سب کے
میں بھروسے کا بنانا چاہتی ہوں
بس ترا ہی پیار مانگوں زندگی میں
میں کہاں کوئی خزانہ چاہتی ہوں
میں نے کب چاہا کی مر جانا مجھے ہے
ایک جینے کا بہانہ چاہتی ہوں
غزل
سارے جگ سے روٹھ جانا چاہتی ہوں
میگی آسنانی