سارے چقماق بدن آیا تھا تیاری سے
روشنی خوب ہوئی رات کی چنگاری سے
ان درختوں کی اداسی پہ ترس آتا ہے
لکڑیاں رنگ نہ دوں آگ کی پچکاری سے
کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتا مسیحائی کا
ہم بھی آزاد ہوئے جاتے ہیں بیماری سے
منہ لگایا ہی نہیں اسلحہ سازوں کو کبھی
میں نے دنیا کو ہرایا بھی تو دل داری سے
عشق بھی لوگ نمائش کے لیے کرتے ہیں
کیا نمازیں بھی پڑھی جاتی ہیں عیاری سے
سارا بازار چلا آیا ہے گھر میں پھر بھی
باز آتے ہیں کہاں لوگ خریداری سے
آخری نیند سے پہلے کہاں سمجھیں گے ہم
خواب سے ڈرنا ضروری ہے کہ بیداری سے
حسن جس چھاؤں میں بیٹھا تھا وہ قاتل تو نہ تھی
جل گئے جسم نگاہوں کی شجرکاری سے
کم سے کم میں تو مرید ان کا نہیں ہو سکتا
جو پس رقص جنوں بیٹھے ہیں ہشیاری سے
غزل
سارے چقماق بدن آیا تھا تیاری سے
نعمان شوق