EN हिंदी
ساقیا ہو گرمی صحبت ذرا برسات میں | شیح شیری
saqiya ho garmi-e-sohbat zara barsat mein

غزل

ساقیا ہو گرمی صحبت ذرا برسات میں

سید آغا علی مہر

;

ساقیا ہو گرمی صحبت ذرا برسات میں
کیا ہی ٹھنڈی ٹھنڈی چلتی ہے ہوا برسات میں

رکھ کے اے ساقی خم مے میں بہا دینا مجھے
بادہ کش ہوں آئے گی میری قضا برسات میں

میری آہیں ہیں دلیل گریۂ بے انتہا
جتنی آندھی آئے بارش ہو سوا برسات میں

پانچ یہ میرے حواس خمسہ ہیں دو جسم و جاں
عشق نے تقسیم پائی ہے برابر سات میں

کب تمہاری راہ دیکھیں پھول ہو کس فضل کے
آؤ گے گرمی میں یا جاڑے میں یا برسات میں

ابر دریا سبزہ ساقی یار مطرب دخت رز
مہرؔ ہے ان سات چیزوں کا مزا برسات میں