ساقی یہ پلا اس کو جو ہو جام سے واقف
ہم آج تلک مے کے نہیں نام سے واقف
مستی کے سوا دور میں اس چشم سیہ کے
کافر ہو جو ہو گردش ایام سے واقف
مر کر بھی تہ خاک نہ آسودہ ہوئے آہ
اے عشق نہ تھے ہم ترے انجام سے واقف
صیاد کی الفت سے پھنسے آن کے ورنہ
تھے کاہے کو ہم اس قفس و دام سے واقف
ملنے کا پیام اس سے کہو جا کے عزیزو
جو اس کے نہ ہو وصل کے پیغام سے واقف
اوروں سے قسم کھائیے اور ہم تو مری جاں
ہیں خوب تمہاری قسم اقسام سے واقف
کوئی نہیں کرتا جو کیا تو نے نظیرؔ آہ
دل اس کو دیا جس کے نہیں نام سے واقف

غزل
ساقی یہ پلا اس کو جو ہو جام سے واقف
نظیر اکبرآبادی