سانسوں میں شہر بھر کی اتر جانا چاہیے
خوشبو ہو تم تو تم کو بکھر جانا چاہیے
کرنا ہے آپ کو جو نئے راستوں کی کھوج
سب جس طرف نہ جائیں ادھر جانا چاہیے
اس بے وفا پہ مرنے کو آمادہ دل نہیں
لیکن وفا کی ضد ہے کہ مر جانا چاہیے
دیوار بن کے وقت اگر راستہ نہ دے
جھونکا ہوا کا بن کے گزر جانا چاہیے
ان کے سوائے جن پہ تباہی گزر گئی
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ ہر جانا چاہیے
یوں آہ بھر کہ اس کا تغافل لرز اٹھے
تو خاک ہو گیا یہ خبر جانا چاہیے
اگلی صفوں میں ہم ہی رہیں کیوں سدا انیسؔ
اب معرکے میں اس کا بھی سر جانا چاہیے
غزل
سانسوں میں شہر بھر کی اتر جانا چاہیے
انیس دہلوی