سانس کا اپنی رگ جاں سے گزر ہونے تک
درد ہوتا ہے مجھے شب کے سحر ہونے تک
عمر گزری پہ اثر آہ کا پھر بھی نہ ہوا
جی گئے ہم بھی کسی زلف کے سر ہونے تک
جب وہ سمجھیں گے تو یہ درد میں ڈھل جائے گی
آہ باقی ہے مری صرف اثر ہونے تک
تھا تغافل انہیں نو میدئ جاوید بھی تھی
خاک در خاک تھے ہم ان کو خبر ہونے تک
اپنے ہی خوں میں نہاتا ہے ہر اک سانس کے ساتھ
دل مرا دل تھا کسی درد کا گھر ہونے تک
سامنا پرتو خور کا کرے شبنم کیسے
زور لگتا ہے بہت خشک کو تر ہونے تک
خاک ہیں خاک میں مل جانے کا ڈر کیوں ہو ہمیں
خوف کھانا ہے تو قطرہ کو گہر ہونے تک
دل میں اب رحم نہیں مہر و محبت بھی نہیں
وہ بھی انساں تھا مگر صاحب زر ہونے تک
ہو گیا عشق جو مایوس تمنا اک بار
موت آئے گی اسے بار دگر ہونے تک
ان کے با ضابطہ ہونے کی ہے تمجیدؔ امید
ہم بھی ہو جاتے ہیں خاموش مگر ہونے تک
غزل
سانس کا اپنی رگ جاں سے گزر ہونے تک
سید تمجید حیدر تمجید