سامنے شاہ وقت کے اسلمؔ کون کہے یہ بات
چور نہ تھے فن کار تھے ہم پھر کاٹ لیے کیوں ہات
اس کا شیوہ اس کی فطرت رشتوں کی توہین
ننگ انسانیت ہیں سب اس کے احساسات
کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا اس کی ذات میں کھوٹ
آ کر واپس ہو جاتی تھی رشتوں کی سوغات
میری خموشی پر طاری ہے کیسا عالم کشف
دشت بدن پر ہونے لگی ہے رنگوں کی برسات
جیسے یہ بھی پاٹ رہی ہوں شخصیت کا جھول
روضوں کی دیواروں پر یوں کندہ ہیں آیات
جانے کس آواز کی خوشبو سونگھ رہے ہیں کان
سارے بدن میں ڈول رہا ہے اک کیف لذات
غزل
سامنے شاہ وقت کے اسلمؔ کون کہے یہ بات
اسلم حنیف