سامنے جو کہا نہیں ہوتا
تم سے کوئی گلہ نہیں ہوتا
جو خفا ہے خفا نہیں ہوتا
ہم نے گر سچ کہا نہیں ہوتا
اس میں جو ایکتا نہیں ہوتی
گھر یہ ہرگز بچا نہیں ہوتا
جانتا کس طرح کہ کیا ہے غرور
وہ جو اٹھ کر گرا نہیں ہوتا
ناؤ کیوں اس کے ہاتھوں سونپی تھی
ناخدا تو خدا نہیں ہوتا
تپ نہیں سکتا دکھ کی آنچ میں جو
خود سے وہ آشنا نہیں ہوتا
پریم خود سا کرے نہ جو سب سے
پھر وہ درویشؔ سا نہیں ہوتا

غزل
سامنے جو کہا نہیں ہوتا
درویش بھارتی