سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا
اب کے فساد دل سے مرے ڈر بھی لے گیا
خیرات بٹ رہی تھی در شہریار پر
سنتے ہیں اب کے بھیک سکندر بھی لے گیا
ماں نے بچا کے رکھا تھا بیٹی کے واسطے
بیٹا ہوا جواں تو یہ زیور بھی لے گیا
آیا تھا ہر کسی کو محبت سے جیتنے
کچھ زخم اپنے سینے کا ساغرؔ بھی لے گیا
غزل
سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا
ساغرؔ اعظمی