EN हिंदी
سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا | شیح شیری
saman to gaya tha magar ghar bhi le gaya

غزل

سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا

ساغرؔ اعظمی

;

سامان تو گیا تھا مگر گھر بھی لے گیا
اب کے فساد دل سے مرے ڈر بھی لے گیا

خیرات بٹ رہی تھی در شہریار پر
سنتے ہیں اب کے بھیک سکندر بھی لے گیا

ماں نے بچا کے رکھا تھا بیٹی کے واسطے
بیٹا ہوا جواں تو یہ زیور بھی لے گیا

آیا تھا ہر کسی کو محبت سے جیتنے
کچھ زخم اپنے سینے کا ساغرؔ بھی لے گیا