ساکن ہے کوئی اور وطن اور کسی کا
یہ روح کسی کی ہے بدن اور کسی کا
سرخی ہے کہو کی مرے ہر سرو و سمن میں
پڑھتا ہے قصیدہ یہ چمن اور کسی کا
تسکین کا باعث ہے کسی اور کا پہلو
احساس دلاتی ہے چبھن اور کسی کا
آئینہ سمجھتے ہیں تجھے سب یہ الگ بات
ہے تجھ میں مگر آئینہ پن اور کسی کا
یہ پیار کا جذبہ ترے کچھ کام تو آئے
میرا نہیں بنتا ہے تو بن اور کسی کا
کہتے ہیں سخنور مجھے نسبت سے تری سب
رہتا ہے مرے لب پہ سخنؔ اور کسی کا
غزل
ساکن ہے کوئی اور وطن اور کسی کا
عبد الوہاب سخن