EN हिंदी
ساحلوں سے دور جس دن کشتیاں رہ جائیں گی | شیح شیری
sahilon se dur jis din kashtiyan rah jaengi

غزل

ساحلوں سے دور جس دن کشتیاں رہ جائیں گی

خالد صدیقی

;

ساحلوں سے دور جس دن کشتیاں رہ جائیں گی
چار جانب خالی خالی بستیاں رہ جائیں گی

پھر سمندر میں اتر جائے گا پانی بوند بوند
جال میں دم توڑتی کچھ مچھلیاں رہ جائیں گی

یہ توانا جسم تھک کر ایک دن گر جائے گا
کھال کے اندر پھڑکتی پسلیاں رہ جائیں گی

باغبانوں کا چمن یوں ہی رہا تو ایک دن
باغ کی پہچان بس دو تتلیاں رہ جائیں گی

میں نہ کہتا تھا کہ دل کی بات کہنے کے لئے
کھوکھلے الفاظ کی بیساکھیاں رہ جائیں گی

یوں اگر گھٹتے رہے انساں تو خالدؔ دیکھنا
اس زمیں پر بس خدا کی بستیاں رہ جائیں گی