ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا
خواہشوں کی کشتیوں کو غرق دریا کر دیا
جسم کیا تھا لذتوں کا ایک دریا تھا کبھی
ہر کسی نے پی کے اس کو آج صحرا کر دیا
آج بیٹھے تک رہے ہیں عمر کا خالی گلاس
موسموں کا مے کدہ یہ کس نے سونا کر دیا
میں برہنہ جسم اس کا اوڑھ کر پھرتا رہا
جامہ پوشی کے جنوں نے مجھ کو ننگا کر دیا
تھا یقیناً دوستوں کی صف میں اک دشمن مرا
بے خبر پا کر اچانک جس نے حملہ کر دیا
سوچ کر ساری بصارت چھیننے والے بتا
تو تو سورج تھا مرا کیوں مجھ کو اندھا کر دیا
وہ جو کل تک مانگتے تھے مجھ سے قد میرا ادیبؔ
شعر کے ناقد نے ان کو مجھ سے اونچا کر دیا
غزل
ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا
کرشن ادیب