ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں
ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں
دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو
کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں
چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج
ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں
منزل سے پلٹ آئے ہیں ہم اہل محبت
جو سنگ ہدایت تھے وہ رستے میں کھڑے ہیں
ہیں مسخ شدہ چہرے شہودؔ آپ سے برہم
آئینہ صفت آپ مقابل جو کھڑے ہیں
غزل
ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں
شہود عالم آفاقی