ساحل انتظار میں تنہا
یاد وہ لہر لہر آئے مجھے
دشت دیوانگی کے ٹیلوں پر
رقص کرتی ہوا بلائے مجھے
اجنبی مجھ سے آ گلے مل لے
آج اک دوست یاد آئے مجھے
بھول بیٹھا ہوں میں زمانے کو
اب زمانہ بھی بھول جائے مجھے
اک گھروندا ہوں ریت کا پیہم
کوئی ڈھائے مجھے بنائے مجھے
ایک حرف غلط ہوں ہستی کا
نیستی کیوں نہ پھر مٹائے مجھے
دفعتاً میرے روبرو آ کر
آئنے میں کوئی ڈرائے مجھے
آندھیاں کیوں مری تلاش میں ہوں
ایک جھونکا ہی جب بجھائے مجھے
جیسے اک نقش نا درست کو طفل
کوئی اندر سے یوں مٹائے مجھے
راکھ اپنی امنگ کی ہوں رضاؔ
آ کے جھونکا کوئی اڑائے مجھے
غزل
ساحل انتظار میں تنہا (ردیف .. ے)
آصف رضا