ساگر بھی تو قطرہ نکلا
جو آنکھوں سے بہتا نکلا
بولو اب تم کیا کہتے ہو
میں اس بار بھی سچا نکلا
دل تو خیر پریشاں تھا ہی
ذہن بھی میرا الجھا نکلا
ڈوب گیا شب کے دریا میں
چاند بھی بس اک قطرہ نکلا
شام ہوئی تو دل میں لوٹا
درد بھی ایک پرندہ نکلا
مجھ سے کس نے باتیں کی تھیں
سناٹا تو گونگا نکلا
اس کے آنسو میری خوشیاں
یہ سودا بھی مہنگا نکلا
کانہاؔ رویا آج میں جی بھر
دل کا اک اک کانٹا نکلا

غزل
ساگر بھی تو قطرہ نکلا
پرکھر مالوی کانھا