EN हिंदी
ساغر بدست ہوں میں | شیح شیری
saghar-ba-dast hun main

غزل

ساغر بدست ہوں میں

نوح ناروی

;

ساغر بدست ہوں میں
مست الست ہوں میں

جو کچھ نہ ہے نہ تھی کچھ
وہ بود و ہست ہوں میں

دل ہے بلند باطن
ظاہر میں پست ہوں میں

کثرت سے کیا تعلق
وحدت پرست ہوں میں

کہہ دو بہار آئے
دامن بدست ہوں میں

ساقی کو بھول بیٹھا
اس درجہ مست ہوں میں

کیوں کر کوئی بھلائے
عہد الست ہوں میں

غم بھی خوشی میں شامل
فتح و شکست ہوں میں

کہتے ہوں نوحؔ مجھ کو
طوفاں پرست ہوں میں