سائباں کیا ابر کا ٹکڑا ہے کیا
دھوپ تو معلوم ہے سایا ہے کیا
اپنے دامن میں چھپا لے موج غم
قطرہ قطرہ زندگی جینا ہے کیا
خواب آنسو احتجاجی زندگی
پوچھیے مت شہر کلکتہ ہے کیا
تند جھونکے سب اڑا لے جائیں گے
شاخ سے ٹوٹا ہوا پتا ہے کیا
ہر قدم اک سانحہ ہے دوستو
ایسے موسم میں کوئی جیتا ہے کیا
میری محرومی مرا غصہ نہ پوچھ
برف کی حدت ہے کیا شعلہ ہے کیا
کیوں دھڑکتا ہے یہ دل عنبر شمیمؔ
اس کی یادوں سے مرا رشتہ ہے کیا
غزل
سائباں کیا ابر کا ٹکڑا ہے کیا
عنبر شمیم