سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے
آگے بڑھوں تو پیچھے سرکتے ہیں راستے
آنسو ہزار ٹوٹ کے برسیں تو پی کے چپ
اک قہقہہ اڑے تو کھنکتے ہیں راستے
سمجھو تو گھر سے گھر کا تعلق انہی سے ہے
دیکھو تو بے مقام بھٹکتے ہیں راستے
دامن میں ان کے پاؤں کے ایسے نشاں بھی ہیں
رہ رہ کے جن کے دم سے دمکتے ہیں راستے
تاروں کی چھاؤں نرم ہے سن لیتی ہے پکار
دن بھر کی دھوپ میں جو بلکتے ہیں راستے
راہے چلیں جو ہم تو چلے آئیں یہ بھی ساتھ
قدموں کی پیٹھ پر ہی ٹھٹکتے ہیں راستے

غزل
سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے
رام پرکاش راہی