سائے مجبور ہیں پیڑوں سے اترنے کے لیے
کیوں خزاں کہتی ہے پتوں سے بکھرنے کے لیے
بھر کے مٹھی میں تو لے جائے گی بادل کو ہوا
کوئی شب آئے گی تاروں سے سنورنے کے لیے
اس کو دو پل بھی مرا ساتھ گوارا نہ ہوا
ساتھ میں جس کے میں تیار تھا مرنے کے لیے
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہوا روٹھ گئی
منتظر پھول ہیں باغوں میں بکھرنے کے لیے
کس بہانے سے تجھے دیکھنے آئے جاویدؔ
کوئی رستہ ہو ترے در سے گزرنے کے لیے
غزل
سائے مجبور ہیں پیڑوں سے اترنے کے لیے
خواجہ جاوید اختر

