سائے ہیں گوش بر آواز ذرا آہستہ
مونسو آج کی شب ذکر وفا آہستہ
چاند کے پاؤں رکے تھم گئے اڑتے بادل
ذکر کس عارض و گیسو کا چلا آہستہ
کتنے دن آئے کفن اوڑھے ہوئے خوابوں کا
شب نے کھولی تری یادوں کی قبا آہستہ
کیا خبر اگلے برس اجنبی ہو جائیں ہم
ٹوٹتے جاتے ہیں پیمان وفا آہستہ
آج پھر زخم تمنا سے مہک اٹھتی ہے
کوئی پیغام لیے آئی صبا آہستہ
آنکھ نے دیکھا نہ ہو دل تو مگر جانے ہے
کون دیتا ہے دریچوں پہ صدا آہستہ
غزل
سائے ہیں گوش بر آواز ذرا آہستہ
کیلاش ماہر