EN हिंदी
سائے گھٹتے جاتے ہیں | شیح شیری
sae ghaTte jate hain

غزل

سائے گھٹتے جاتے ہیں

منیر نیازی

;

سائے گھٹتے جاتے ہیں
جنگل کٹتے جاتے ہیں

کوئی سخت وظیفہ ہے
جو ہم رٹتے جاتے ہیں

سورج کے آثار ہیں دیکھو
بادل چھٹتے جاتے ہیں

آس پاس کے سارے منظر
پیچھے ہٹتے جاتے ہیں

دیکھو منیرؔ بہار میں گلشن
رنگ سے اٹتے جاتے ہیں