ساعت آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
مفلسی کو میرے گھر ٹھہرے ہوئے عرصہ ہوا
لمحۂ راحت رسا دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
ماں ترے شانے پہ سر رکھے ہوئے عرصہ ہوا
ہجر کی تاریکیوں کا سلسلہ ہے دور تک
چاندنی کو چاند سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا
زندگی بے خواب لمحوں میں سمٹ کر رہ گئی
ہجر میں تیرے پلک جھپکے ہوئے عرصہ ہوا
خوف سے سہما ہوا ہے دل پرندہ آج بھی
سر سے سیلاب الم گزرے ہوئے عرصہ ہوا
دل کو رہتا ہے مسلسل منتشر ہونے کا خوف
یعنی اندر سے مجھے ٹوٹے ہوئے عرصہ ہوا
کاروبار زیست میں کچھ اس قدر الجھا کہ بس
تیرے بارے میں بھی کچھ سوچے ہوئے عرصہ ہوا
اے ہجوم آرزو اب چاہتا ہوں تخلیہ
خانۂ دل میں تجھے رہتے ہوئے عرصہ ہوا
میں کہاں ہوں کون سی منزل میں ہوں کوئی بتائے
مجھ کو اپنی کھوج میں نکلے ہوئے عرصہ ہوا
دشمنی گم ہو گئی ہے دوستوں کی بھیڑ میں
چہرہ ہائے دشمناں دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
جا تو اپنی راہ لے اب اے دل عشرت طلب
پہلوئے شہبازؔ میں بیٹھے ہوئے عرصہ ہوا
غزل
ساعت آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
شہباز ندیم ضیائی