EN हिंदी
روٹھنا چاہو تو اب ہرگز منانے کا نہیں | شیح شیری
ruThna chaho to ab hargiz manane ka nahin

غزل

روٹھنا چاہو تو اب ہرگز منانے کا نہیں

امید خواجہ

;

روٹھنا چاہو تو اب ہرگز منانے کا نہیں
دل کو مائل کر لیا آنسو بہانے کا نہیں

راستے دھندلا گئے ہیں روشنی والو سنو
وعدہ جلنے کا کیا تھا ٹمٹمانے کا نہیں

کشتیاں منجدھار میں ہیں ناخدا ناراض ہیں
آسمانوں سے کہو بجلی گرانے کا نہیں

کب ڈھلے گی شام غم کب ختم ہوگا ظلم‌ و جبر
زندگی انساں کی ہے عنواں فسانے کا نہیں

لو چلے جاتے ہیں خالی ہاتھ دنیا سے امیدؔ
یاد کر لینا عزیزو بھول جانے کا نہیں