EN हिंदी
روپ کا رسیا سکھ کا کھوجی دل ہے وہ بالک نادان | شیح شیری
rup ka rasiya sukh ka khoji dil hai wo baalak nadan

غزل

روپ کا رسیا سکھ کا کھوجی دل ہے وہ بالک نادان

کرشن کمار طورؔ

;

روپ کا رسیا سکھ کا کھوجی دل ہے وہ بالک نادان
در در گھومے بنا بھکاری مانگے خوشیوں کا دان

جلتی بجھتی شمعوں سے پوچھو رات کے سینے کا درد
اڑتے پکھیرو بتلائیں گے سورج کی ہر مسکان

کون چکھے یہ پان کا بیڑا کون چڑھائے چلا
نس نس ٹوٹ ٹوٹ رہ جائے جیون وہ کڑی کمان

اس کا جسم ہے جیسے ہوا میں مچلتے دھان کی بالی
اس کی شوخ کٹیلی نظریں جیسے ارجن کے بان

کبھی کبھی تو پھول کی خوشبو بھی کر دیتی ہے زکام
کبھی کبھی تو شراب بھی ہوتی ہے جیون کا وردان

مول تول کب کرتے ہیں بھلا دل سی شے کے گاہک
مہنگی بکے یا سستی اٹھے ہیں دونوں ایک سمان

ہم سے بھی کچھ کہہ لو سن لو اے جانے والی راتو
ہم بھی تو ہیں اس دنیا میں دو گھڑیوں کے مہمان