روکھی سوکھی کھا سکتے تھے
تیرا ساتھ نبھا سکتے تھے
کاٹ کے جڑ اک دوجے کی ہم
کتنے پھول اگا سکتے تھے
ہم تلوار اٹھا نہیں پائے
ہم آواز اٹھا سکتے تھے
غربت کا احسان تھا ہم پر
اک تھالی میں کھا سکتے تھے
تم تعبیر خدا سے مانگو
ہم بس خواب دکھا سکتے تھے
ہم کو رونا آ جاتا تو
ہم بھی شور مچا سکتے تھے
خوابوں نے جو آگ لگائی
اس کو اشک بجھا سکتے تھے

غزل
روکھی سوکھی کھا سکتے تھے
محمد مستحسن جامی