روح تنہا گئی جنت کو سبکساری سے
چار کے کاندھے اٹھا جسم گرانباری سے
طاق طاقت ہے غم ہجر کی بیماری سے
بیٹھتے اٹھتے ہیں آہوں کی مددگاری سے
حسن رخسار بڑھا خط کی نموداری سے
زینت صفحہ ہوئی جدول زنگاری سے
تو جو تلوار سے نہلائے لہو میں مجھ کو
غسل صحت ہوا بھی عشق کی بیماری سے
اور تو ترک کیا سب نے شب فرقت میں
بیکسی باز نہ آئی مری غم خواری سے
غزل
روح تنہا گئی جنت کو سبکساری سے
نادر لکھنوی