EN हिंदी
روح سے کب یہ جسم جدا ہے | شیح شیری
ruh se kab ye jism juda hai

غزل

روح سے کب یہ جسم جدا ہے

شکیل گوالیاری

;

روح سے کب یہ جسم جدا ہے
ان باتوں میں کیا رکھا ہے

رفتہ رفتہ وہ بھی مجھ کو
بھول رہا ہے بھول چکا ہے

رت پیراہن بدل رہی ہے
پتا پتا ٹوٹ رہا ہے

ان آنکھوں کا ہر افسانہ
میرے ہی خوابوں کی صدا ہے

ہر چہرہ جانا پہچانا
شہر ہی اپنا چھوٹا سا ہے