روح سے کب یہ جسم جدا ہے
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
رفتہ رفتہ وہ بھی مجھ کو
بھول رہا ہے بھول چکا ہے
رت پیراہن بدل رہی ہے
پتا پتا ٹوٹ رہا ہے
ان آنکھوں کا ہر افسانہ
میرے ہی خوابوں کی صدا ہے
ہر چہرہ جانا پہچانا
شہر ہی اپنا چھوٹا سا ہے

غزل
روح سے کب یہ جسم جدا ہے
شکیل گوالیاری