EN हिंदी
روح میری الگ ہے جان الگ | شیح شیری
ruh meri alag hai jaan alag

غزل

روح میری الگ ہے جان الگ

نقاش عابدی

;

روح میری الگ ہے جان الگ
ذات کا ناتواں مکان الگ

ہر طرف پھیلتی ہوئی کرنیں
اک اندھیرے کا خاندان الگ

ایک ذرہ ہوں اور کچھ بھی نہیں
ہوں بہت کچھ ہے یہ گمان الگ

قید ہیں آنکھ میں کئی سپنے
اور ہے فکر کی اڑان الگ

اک طرف شور خانۂ دل میں
عقل رہتی ہے بے زبان الگ

کر رہا ہے نصیب کی باتیں
اور تدبیر پر ہے مان الگ

ڈوبتے تیرتے ہوئے قصے
اور حیرت کی داستان الگ