EN हिंदी
روح کو تو اک ذرا سی روشنی درکار ہے | شیح شیری
ruh ko to ek zara si raushni darkar hai

غزل

روح کو تو اک ذرا سی روشنی درکار ہے

فرحت احساس

;

روح کو تو اک ذرا سی روشنی درکار ہے
جسم کو لیکن بہت کچھ اور بھی درکار ہے

آج پھر ہم سے کیا دریافت کوہ طور نے
اس سے کیا کہتے کہ نور گمرہی درکار ہے

بعد میں عشق حقیقی بھی میسر ہو تو کیا
یہ مجازی تو ہمیں فوراً ابھی درکار ہے

عشق اس خواہش پہ میری سوچ میں گم ہو گیا
مجھ کو پانی بھی ہے درکار آگ بھی درکار ہے

فرحتؔ احساس اپنی مٹی کا دھڑکتا دل سنبھال
بعد مرنے کے جو تجھ کو زندگی درکار ہے