روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا
دشت غربت میں مسافر کو وطن یاد آیا
چٹکیاں دل میں مرے لینے لگا ناخن عشق
گلبدن دیکھ کے اس گل کا بدن یاد آیا
وہم ہی وہم میں اپنی ہوئی اوقات بسر
کمر یار کو بھولے تو دہن یاد آیا
برگ گل دیکھ کے آنکھوں میں ترے پھر گئے لب
غنچہ چٹکا تو مجھے لطف سخن یاد آیا
در بدر پھر کے دلا گھر کی ہمیں قدر ہوئی
راہ غربت میں جو بھولے تو وطن یاد آیا
آہ کیوں کھینچ کے آنکھوں میں بھر آئے آنسو
کیا قفس میں تجھے اے مرغ چمن یاد آیا
پھر امانتؔ مرا دل بھول گیا عیش و طرب
پھر مجھے روضۂ سلطان زمن یاد آیا
غزل
روح کو راہ عدم میں مرا تن یاد آیا
امانت لکھنوی