روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے
لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے
جسم کو آئنہ دکھلاتے ہیں سائے ورنہ
آدمی کے لیے اچھا تھا اجالوں میں رہے
وقت سے پہلے ہو کیوں ذہن پہ خورشید کا بوجھ
رات باقی ہے ابھی چاند پیالوں میں رہے
پھر تو رہنا ہی ہے گھورے کا مقدر ہو کر
پھول تازہ ہے ابھی ریشمی بالوں میں رہے
شوق ہی ہے تو بہرحال تماشا بنیے
یہ ضروری نہیں وہ دیکھنے والوں میں رہے
اب کلنڈر میں نیا ڈھونڈئیے چہرہ شاہدؔ
کب تلک ایک ہی تصویر خیالوں میں رہے

غزل
روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے
شاہد کبیر