EN हिंदी
روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے | شیح شیری
ruh ko qaid kiye jism ke haalon mein rahe

غزل

روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے

شاہد کبیر

;

روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے
لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے

جسم کو آئنہ دکھلاتے ہیں سائے ورنہ
آدمی کے لیے اچھا تھا اجالوں میں رہے

وقت سے پہلے ہو کیوں ذہن پہ خورشید کا بوجھ
رات باقی ہے ابھی چاند پیالوں میں رہے

پھر تو رہنا ہی ہے گھورے کا مقدر ہو کر
پھول تازہ ہے ابھی ریشمی بالوں میں رہے

شوق ہی ہے تو بہرحال تماشا بنیے
یہ ضروری نہیں وہ دیکھنے والوں میں رہے

اب کلنڈر میں نیا ڈھونڈئیے چہرہ شاہدؔ
کب تلک ایک ہی تصویر خیالوں میں رہے