روح کے معجزوں کا زمانہ نہیں جسم ہی کچھ کرامات کرتے رہیں
اپنے ہونے کا اعلان کرتے رہیں اپنے ہونے کا اثبات کرتے رہیں
برف رت آ گئی پھر نئی بستیوں سے نئی ہجرتوں نے پکارا ہمیں
لیکن اس بار پردیس جاتے ہوئے راستوں پر نشانات کرتے رہیں
پھر کوئی تشنہ لب تیر اس دشت میں ہم تک آیا ہے طے کر کے کتنا سفر
اے رگ جاں کی جوئے رواں ہم بھی کچھ میہماں کی مدارات کرتے رہیں
ایک ہی پیڑ پر سانپ اور آدمی ساتھ رہتے ہیں سیلاب اترنے تلک
ہم سفر ہے اگر دشمن جاں تو کیا راہ سنسان ہے بات کرتے رہیں
جان لینے کا ویسا سلیقہ ابھی لشکر دشمناں میں کسی کو نہیں
آؤ اب اپنے خیموں میں واپس چلیں دوستوں سے ملاقات کرتے رہیں
غزل
روح کے معجزوں کا زمانہ نہیں جسم ہی کچھ کرامات کرتے رہیں
عرفانؔ صدیقی