روح اجداد کو جھنجھوڑ دیا بچوں نے
سارے حالات کا رخ موڑ دیا بچوں نے
آخری ایک کھلونا تھا روایت کا وقار
باتوں باتوں میں جسے توڑ دیا بچوں نے
گھر کا ہر شخص نظر آتا ہے بت پتھر کا
جب سے رشتوں کو نیا موڑ دیا بچوں نے
زندگی آج ہے اک ایسے اپاہج کی طرح
لا کے جنگل میں جسے چھوڑ دیا بچوں نے
آج کے دور کی تہذیب کا پتھر لے کر
ایک دیوانے کا سر پھوڑ دیا بچوں نے
زد میں آ جائیں گے سب شہر سبھی گاؤں بھی
موج دریا کو کدھر موڑ دیا بچوں نے
سب بزرگوں کے تبسم کو دکھاوا کہئے
ورنہ یہ سچ ہے کہ دل توڑ دیا بچوں نے

غزل
روح اجداد کو جھنجھوڑ دیا بچوں نے
کنول ضیائی