EN हिंदी
روپوش آنکھ سے کوئی خوشبو لباس ہے | شیح شیری
ru-posh aankh se koi KHushbu libas hai

غزل

روپوش آنکھ سے کوئی خوشبو لباس ہے

رام اوتار گپتا مضظر

;

روپوش آنکھ سے کوئی خوشبو لباس ہے
گو دور دور سا ہے مگر آس پاس ہے

یہ سن کے ریگزار کے ہونٹوں پہ پیاس ہے
دریا کی بے رخی پہ سمندر اداس ہے

شام اودھ نے زلف میں گوندھے نہیں ہیں پھول
تیرے بغیر صبح بنارس اداس ہے

کھاتی وگرنہ ٹھوکریں چاہت کہاں کہاں
داتا مرا بڑا ہی تمنا شناس ہے

رہبر بنا ہوا ہے جو سایہ قدم قدم
پرتو ترا ہی میرے کہیں آس پاس ہے

یا رب ہمارے جذبۂ دیدہ وری کی خیر
جو پھول ہے چمن میں وہ شبنم لباس ہے