روئے زمیں نہیں کہ سر آسماں نہیں
سچ پوچھیے تو اس کے نشاں ہیں کہاں نہیں
خود ہم میں آج ہمت و عزم جواں نہیں
ورنہ پہنچ سے دور کبھی آسماں نہیں
بس ایک ذات حق کے سوا کائنات میں
ہر شے فنا پذیر ہے کچھ جاوداں نہیں
تم نے جو کچھ کہا سو کہا اپنا اپنا ظرف
ایسا نہیں کہ میرے دہن میں زباں نہیں
دل میں ہمارے حسرت و ارماں کا ہے ہجوم
کیسے کہیں کہ ہم پہ کوئی مہرباں نہیں
کر عرض مدعا مگر اے دل رہے خیال
انکار کر دیا تو کرے گا وہ ہاں نہیں
تابشؔ وہ سامنے ہی ہے اڑتا ہوا غبار
بس دو قدم سے دور ہے اب کارواں نہیں
غزل
روئے زمیں نہیں کہ سر آسماں نہیں
روہت سونی تابشؔ