EN हिंदी
روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی | شیح شیری
ru-ba-ru gham ke ye taqdir kahan se aai

غزل

روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی

کرامت علی کرامت

;

روبرو غم کے یہ تقدیر کہاں سے آئی
اور ہتھیلی کی یہ تحریر کہاں سے آئی

دل کے گوشے میں جسے میں نے چھپا رکھا تھا
تیرے البم میں وہ تصویر کہاں سے آئی

دبی خواہش کا تھا اظہار تماشہ گویا
خواب تھا خواب یہ تعبیر کہاں سے آئی

فن کو میدان کھلا چاہئے جینے کے لئے
رقص کی راہ میں زنجیر کہاں سے آئی

زندگی کے ابھی آثار ہیں باقی ورنہ
دور تخریب میں تعمیر کہاں سے آئی

ڈھونڈنے نکلے تھے ہم موت کے معنی لیکن
زندگی کی نئی تفسیر کہاں سے آئی

اس کو آدم ہی کی تقصیر کا ثمرہ کہئے
ورنہ جنت کی یہ جاگیر کہاں سے آئی

وقت کا سیل کرامتؔ تجھے لے ڈوبا تھا
یک بیک یہ تری تدبیر کہاں سے آئی