روبرو آنا چھپانا چھوڑ دے
لن ترانی کا سنانا چھوڑ دے
جلوہ گر ہو جا مرے دل میں صنم
کو بہ کو مجھ کو پھرانا چھوڑ دے
اب تو مشت خاک باقی رہ گئی
شعلۂ فرقت جلانا چھوڑ دے
رنج سہنے کی نہیں طاقت مجھے
غیر کی محفل میں جانا چھوڑ دے
مثل بت خاموش ہو جاؤں گا میں
گر سلاسل غل مچانا چھوڑ دے
اے صبا سرگشتہ میں کب تک رہوں
میری مٹی کا اڑانا چھوڑ دے
تار تار اب ہو گئے دامن مرے
پنجۂ وحشت سنانا چھوڑ دے
رخ پہ آ کر بے ادب کرتے ہیں بل
گیسوؤں کا سر چھڑانا چھوڑ دے
ہوں جمیلہؔ کی طرح میں غمزدہ
اے فلک میرا ستانا چھوڑ دے

غزل
روبرو آنا چھپانا چھوڑ دے
جمیلہ خدا بخش