رتبۂ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا
ہم نشیں ضبط سخن کا بھی اثر پہنچے گا
بے صدارات سے عاجز ہے مرا دست جنوں
کوئی دن تا بہ گریبان سحر پہنچے گا
کھنچ کے رہ مجھ سے مگر ضبط کی تلقین نہ کر
اب مری آہ سے تجھ کو نہ ضرر پہنچے گا
باتوں باتوں میں سب احوال جدائی مت پوچھ
کچھ کہوں گا تو ترے دل پہ اثر پہنچے گا
رنج اٹھاتے ہیں مرے ضبط فغاں سے ہم سایے
لے کے تم تک کوئی مرنے کی خبر پہنچے گا
میرے مرنے سے غم عشق نہ مر جائے گا
مجھ کو چھوڑے گا تو غم خوار کے گھر پہنچے گا
اپنے گیسو تو سنبھالو کہ کھلے جاتے ہیں
ورنہ الزام مرے شوق کے سر پہنچے گا
تم کو جینا ہے تو کچھ عیب بھی لازم ہیں شہابؔ
زندگی کو تو نہ فیضان ہنر پہنچے گا
غزل
رتبۂ درد کو جب اپنا ہنر پہنچے گا
شہاب جعفری