رسوا کیا شعور کو دانائی چھین لی
جہل خرد نے آنکھوں سے بینائی چھین لی
سانسوں میں گونجتی ہوئی شہنائی چھین لی
شہروں نے مجھ سے گاؤں کی پروائی چھین لی
اس طرح بھی بدلتے ہیں نظروں کے زاویے
خود خواب ہی نے خواب کی رعنائی چھین لی
روحوں کی مفلسی نے بہرحال ایک دن
چہرہ آئنوں سے خوئے شناسائی چھین لی
ہونٹ آئنوں کے یونہی نہیں ہیں سلے ہوئے
ارزانیٔ جمال نے گویائی چھین لی
فطرت کا یہ تضاد عجیب و غریب ہے
تنہائی دینے والے نے تنہائی چھین لی

غزل
رسوا کیا شعور کو دانائی چھین لی
قیصر صدیقی