رکتی نہیں ہے گردش دوراں کہا نہ تھا
اٹھا کریں گے نت نئے طوفاں کہا نہ تھا
بڑھتا رہے گا حوصلۂ جبر و اختیار
تڑپا کریں گے ظلم سے انساں کہا نہ تھا
ہر روز ہوں گے قتل کے ساماں نئے نئے
ہر شام ہوگی شام غریباں کہا نہ تھا
جاری رہا جو سلسلۂ ضبط آرزو
لو دے اٹھے گی سوزش پنہاں کہا نہ تھا
تذلیل اعتبار و یقیں ہوں گے حرف و صوت
لٹتی رہے گی دولت ایماں کہا نہ تھا
دنیا سے منصفی کی توقع فضول ہے
بیٹھے رہوگے حشر بداماں کہا نہ تھا
غزل
رکتی نہیں ہے گردش دوراں کہا نہ تھا
منیر احمد منیر دہلوی