EN हिंदी
رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی | شیح شیری
ruki ruki si shab-e-marg KHatm par aai

غزل

رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی

فراق گورکھپوری

;

رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی
وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ
مسافروں سے کہوں اس کی رہ گزر آئی

فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پر آنکھ بھر آئی

کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی
امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

ترا ہی عکس سرشک غم زمانہ میں تھا
نگاہ میں تری تصویر سی ابھر آئی

شب فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد
کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی