رخ تمہارا ہو جدھر ہم بھی ادھر ہو جائیں گے
تم سے بچھڑیں گے اگر تو در بہ در ہو جائیں گے
زندگانی کے سفر میں لطف ہوگا تب نصیب
ہم خیال و ہم نوا جب ہم سفر ہو جائیں گے
آسمانوں کا سفر ہم طے کریں گے ایک روز
جب ہمارے حوصلوں میں بال و پر ہو جائیں گے
سادگی یوں ہی اگر لادے رہے تو ایک دن
سب تمہارے اپنے تم سے بے خبر ہو جائیں گے
دیکھنا جس دن انہیں مقصد سمجھ میں آئے گا
منزلوں کی جستجو میں رہ گزر ہو جائیں گے
پودے ہیں اردو ادب کے آب و دانہ ڈالیے
آنے والے کل میں سائے اور ثمر ہو جائیں گے
ساقی ساغر کی ضرورت ہی کہاں میرے لئے
تیری آنکھوں کے ہی پیالے پر اثر ہو جائیں گے
وہ نہ جائیں گے کبھی مہتابؔ ظلمت کی طرف
وقت پر انجام سے واقف اگر ہو جائیں گے
غزل
رخ تمہارا ہو جدھر ہم بھی ادھر ہو جائیں گے
بشیر مہتاب