EN हिंदी
رخ پہ یوں جھوم کر وہ لٹ جائے | شیح شیری
ruKH pe yun jhum kar wo laT jae

غزل

رخ پہ یوں جھوم کر وہ لٹ جائے

سیف الدین سیف

;

رخ پہ یوں جھوم کر وہ لٹ جائے
خضر دیکھے تو عمر کٹ جائے

اس نظارے سے کیا بچے کوئی
جو نگاہوں سے خود لپٹ جائے

یہ بھی اندھیر ہم نے دیکھا ہے
رات اک زلف میں سمٹ جائے

جانے تجھ سے ادھر بھی کیا کچھ ہے
کاش تو سامنے سے ہٹ جائے

موت نے کھیل ہم کو جانا ہے
کبھی آئے کبھی پلٹ جائے

ڈوبنے تک میں ناامید نہیں
کب نہ جانے ہوا پلٹ جائے

رات گزرے نہ درد دل ٹھہرے
کچھ تو بڑھ جائے کچھ تو گھٹ جائے

ان سے کہہ کر بھی دیکھ لیں غم دل
سیفؔ یہ کام بھی نپٹ جائے