رخ روشن کو بے نقاب نہ کر
دل کی دنیا میں انقلاب نہ کر
آئنہ رکھ نہ سامنے اس کے
حسن خودبیں کو لا جواب نہ کر
چار سو جلوہ گر تو ہی تو ہے
آئنہ خانہ میں حجاب نہ کر
میرے نغموں میں کیف غم بھر دے
مجھ کو منت کش رباب نہ کر
میری اختر شماریاں مت پوچھ
اپنے وعدوں کا کچھ حساب نہ کر
بخت دازوں کو رو رہا ہوں میں
غم زدہ پر فلک عذاب نہ کر
راہ پرخار ہے ابھی در پیش
آبلوں کا ابھی حساب نہ کر
شوقؔ ہے تیرا منتظر کب سے
اب تو صورت دکھا حجاب نہ کر
غزل
رخ روشن کو بے نقاب نہ کر
شوق بجنوری